عمران خان کیخلاف اٹک جیل میں سائفر مقدمے کی سماعت کسی طور قبول نہ کرنےکا فیصلہ جیل میں خفیہ ٹرائل قوم سے کچھ چھپانے کی کوشش ہے، سائفر ڈی کلاسیفائی ہونے کے بعد آفیشل سیکرٹس ایکٹ کو لاگو نہیں کیا جا سکتا، یہ مقدمہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ اعلامیہ پی ٹی آئی کورکمیٹی


 چئیرمین تحریک انصاف کے خلاف اٹک جیل میں سائفر مقدمے کی سماعت کسی طور قبول نہ کرنے کا فیصلہ، چئیرمین تحریک انصاف کو فئیر ٹرائل کے بنیادی حق سے محروم کرتے ہوئے ان کے عدالتی ریمانڈ کی شدید مذمت ، چئیرمین تحریک انصاف کے جیل میں ٹرائل کے خلاف بھرپور قانونی چارہ جوئی کی حکمت عملی پر بھی تفصیلی مشاورت، چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کو  قوم کی حقیقی آزادی پر دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے ایبسیلیوٹلی ناٹ کہنے کی سزا دی جا رہی ہے۔

چئیرمین تحریک انصاف  عمران خان کا جیل میں خفیہ ٹرائل واضح کرتا ہے کہ حکومت قوم سے کچھ چھپانے کیلئے کوشاں ہے، اپنے عزائم و اہداف کو پوشیدہ رکھنے کیلئے سابق وزیر اعظم کو آزادانہ اور منصفانہ ٹرائل سے محروم کیا جا رہا ہے، چئیرمین تحریک انصاف کی قانونی ٹیم  جیل میں کیے جانے والے خفیہ  ٹرائل کو عدالت میں چیلنج کر چکی ہے، چاہتے ہیں کہ معزز عدالت فوری طور پر اس معاملے کی سماعت کرے اور عمران خان کے خلاف بدترین انتقامی کارروائیوں کے سلسلے کو بند کرنے کے احکامات صادر کرے، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی  کو سائفر کیس  کے ذریعے سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی فوری طور پر ترک کیا جائے، سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ پرآفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کا کوئی قانونی  جواز موجود نہیں، یہ حقیقت ہے کہ سائفر اپنی اصلی حالت میں  آج  بھی دفتر خارجہ میں موجود ہے، قواعد کے مطابق سائفر کبھی دفتر خارجہ سے باہر نہیں گیا جس کی تصدیق سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے نے بھی کی ہے، یہ حقیقت اس الزام کو بےبنیاد ثابت کرتی ہے کہ سابق وزیر اعظم سے یہ سائفر کہیں کھو گیا، سائفر کو وفاقی کابینہ نے اپنے اختیارات کے تحت  ڈی کلاسیفائی کیا، ڈی کلاسیفائی کیے جانے کے بعد، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کو لاگو نہیں کیا جا سکتا، جس سے یہ مقدمہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے، سائفر کے متن کےمنظر عام پر آ نے کے بعد یہ حقیقت بھی پوری طرح آشکار ہو چکی ہے  کہ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی گئی۔

وفاقی کابینہ ہی نہیں بلکہ قومی سلامتی کمیٹی نے بھی سائفر کے اس متن کی بنیاد پر  ایک احتجاجی مراسلے (ڈپلومیٹک ڈیمارش) کی منظوری دی۔ پاکستان کے داخلی معاملات میں صریح مداخلت کے خلاف موقف اختیار کرنے پر کیسےپاکستان کے  ایک سابق وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو تعزیب کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، یہ مقدمہ چئیرمین عمران خان کے حوصلے کو توڑنے اور تحریک انصاف کو کچلنے کے جاری سلسلے کی کڑی ہے۔

چئیرمین عمران خان کے عزم و ہمت میں دراڑ ڈالنے یا تحریک انصاف کو سیاسی طور پر غیر متعلق کرنے کی یہ کوششیں کسی صورت کامیاب نہ ہوں گی، اجلاس میں تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الہیٰ کے جیل سے بھجوائے گئے پیغام کی زبردست تحسین، چوہدری پرویز الہیٰ نے پیغام بھجوایا ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ تھے، ہیں اور آخری دم تک رہیں گے، صدر تحریک انصاف نے اپنے صاحبزادے چوہدری مونس الہیٰ کو واضح ہدایات دی ہیں کہ کسی خفیہ سمجھوتے کا حصہ نہیں بنیں گے، صدر تحریک انصاف چوہدری پرویز الہٰی کی ہمت وحوصلے کو نہایت قدر و قیمت کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کے جرات مندانہ اصولی موقف کی بے حس تحسین کرتے ہیں، اجلاس میں قومی تشخص کے حامل تحقیقاتی صحافی ارشد شریف شہید کے قتل کی تحقیقات میں مؤثر پیش رفت نہ کیے جانے پر بھی شدید تشویش کا اظہار، ملک کے نامور صحافی عمران ریاض کی تین ماہ سے زائد عرصے پر محیط جبری گمشدگی اور عدم بازیابی کی بھی شدید مذمت، وفاقی حکومت سے ارشدشریف شہید کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات فوری مکمل کرنے اور ذمہ داران کو تعین کر کے انہیں قوم کے سامنے بےنقاب کرنے کا پر زور مطالبہ، عمران ریاض خان کی فوری بازیابی اور ان کی صحت وسلامتی کے حوالے سے ان کے اہلِ خانہ کو بالخصوص اور قوم کو بالعموم معلومات فراہم کرنے کی ضرورت پر بھی زور، اجلاس میں بدترین ریاستی جبر کے نتیجے میں جیلوں میں قید قائدین اور خصوصاً خواتین کارکنان کے عزم و ہمت کی بھی زبردست تحسین، عدالتِ عظمیٰ سے ریاستی مشینری کی جانب سے روا رکھی جانے والی ننگی لاقانونیت کے خلاف مؤثر اقدام کرتے ہوئے زیرِحراست کارکنان خصوصاً خواتین کارکنان کے حقوق کے تحفظ کی استدعا، اجلاس میں الزام عائد کیا گیا کہ تحریک انصاف سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ کی سندھ ہائیکورٹ کے باہر سے غیر قانونی اور خلافِ قاعدہ گرفتاری کی بھی شدید مذمت، سینیٹر عون عباس بپی ، بیرسٹر حسان نیازی اور حلیم عادل شیخ سمیت غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے سیاسی کارکنان کی فوری بازیابی و رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

Comments